Risalah Video Magazine

سفرِ واپسی

راستے میں ٹی سٹال سے ہم نے چائے کا ایک ایک کپ لیا۔ کمرے میں آ کر ایک دو بسکٹ کھائے اور روانگی کے لیے تیار ہو گئے۔ ہمارا سامان رات سے ہی بندھا رکھا تھا۔ فوری استعمال والی چند اشیاء سمیٹ کر بیگ میں ڈالیں۔ کمرے میں الوداعی نظر دوڑائی اور سامان لے کر باہر نکل آئے۔

الشہداء کی وسیع و عریض خوبصورت لابی جو اکثر مہمانوں سے آباد نظر آتی ہے وہاں کچھ لوگ گروپوں کی شکل میں موجود تھے۔ ایک خالی گوشہ دیکھ کر ہم نے سامان رکھا اور صوفوں پر بیٹھ گئے۔ اس وقت صبح کے سات بجے تھے جبکہ آٹھ بجے ہماری جدہ کے لیے رواںگی تھی۔ جہاں سے دبئی کے لیے ہماری پرواز سہ پہر چار بجے تھی۔

حاجیوں کو اسی طرح سات آٹھ گھنٹے قبل ایئر پورٹ پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس میں سے کچھ وقت مکہ مکرمہ سے جدہ کے سفر میں گزرتا ہے بقیہ کاغذی کاروائی کرنے میں کام آتا ہے۔ سب سے اہم کام متعلقہ محکمے سے اپنا پاسپورٹ وصول کرنا ہوتا ہے۔ جب تک مسافر کو پاسپورٹ نہیں ملتا اور اس کا بورڈنگ کارڈ اس کے ہاتھ میں نہیں آ جاتا اسے سکون نہیں ملتا۔ کیونکہ تیس لاکھ حاجیوں کے ہوتے ہوئے کچھ بھی انہونی ہو سکتی ہے۔ اگر ہم جیسے بین الاقوامی مسافروں کا پاسپورٹ کھو جائے تو بہت بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ اضافی ادا کیے ہوئے ٹیکس ایئر پورٹ پر ہی واپس کیے جاتے ہیں۔ بورڈنگ کارڈ کا حصول اور چیک اِن کا مرحلہ بھی جدہ میں آسان اور سیدھا نہیں ہوتا۔ جدہ ایئر پورٹ ان دنوں بے انتہا مصروف ہوتا ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر حاجیوں کو آٹھ گھنٹے قبل ایئرپورٹ پہنچایا جاتا ہے۔ یا کم از کم ہوٹل سے فارغ کر کے روانہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کی قسمت اچھی ہو تو ڈرائیور وقت پر ایئرپورٹ پر پہنچا دیتا ہے۔ اگر قسمت خراب ہو تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایئر پورٹ کے لیے اتنا پہلے روانہ ہونے کی کچھ اور بھی وجوہات ہیں جو سفر کی تفصیل پڑھ کر آپ کی سمجھ میں آ جائیں گی۔

ہم لابی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ لبیک کا مالک ہمیں الوداع کہنے کے لیے آ گیا۔ وہ ہر حاجی کو رخصت کرنے خود آتا تھا۔ سلام دعا کے بعد اس نے کہا ’’آپ اوپر جا کر ناشتہ کر لیں۔ ابھی آپ کی بس جانے میں کچھ وقت ہے‘‘

میں نے اہلیہ کی طرف دیکھا تو اس نے اشارہ کیا اس کا دل نہیں چاہ رہا ہے۔ میرا دل اس سے بھی زیادہ کھانے سے اُچاٹ تھا۔ لہٰذا میں نے جواب دیا ’’آپ کا شکریہ! ہمیں اس وقت کھانے کی طلب نہیں ہے‘‘

اس نے کہا ’’جیسے آپ کی مرضی! آپ کو آب زمزم کی ایک بوتل ہماری طرف سے دی جائے گی۔ ہمارے لوگ آپ کو بس کے اڈے پر اتار کر آئیں گے۔ بس کا بندوبست ہم نے کیا ہوا ہے‘‘

وہ رخصت ہوئے تو ہمارے گروپ کے مزید تین جوڑے ہوٹل کی لابی میں آ گئے۔ ان میں جاوید صاحب بھی شامل تھے جو سڈنی واپس جا رہے تھے۔ باقی دوستوں میں ایک جوڑا لاہور اور دوسرا ملبورن جا رہا تھا جبکہ ہماری منزل اسلام آباد تھی۔ ان سب کا تعلق آسٹریلیا سے تھا۔ تقریباً ساڑھے آٹھ بجے دو کاروں میں بٹھا کر ہمیں لاری اڈے پہنچا دیا گیا۔ وہاں بہت سی بسیں موجود تھیں۔ ہمیں ایک بس ڈرائیور کے حوالے کرنے کے بعد ہمارا مینجر لوٹ گیا۔

بس ڈرائیور نے ہماری طرف توجہ ہی نہیں دی۔ وہ وہاں موجود دوسرے ڈرائیوروں سے بات چیت میں مصروف رہا۔ یہ ڈرائیور خالص بدو تھا۔ اس نے قندورہ پہن رکھا تھا جو بے حد میلا اور گندا تھا۔ چپلوں میں سے اس کے کھردرے اور گندے پاؤں جھانک رہے تھے۔ لگتا تھا صدیوں سے یہ پاؤں دھوئے نہیں گئے اور جوتوں سے بھی بے نیاز رہے ہیں۔ اس کے دانت میل خوردہ اور چہرے پر خشخشی سی داڑھی تھی۔ عربی کے علاوہ وہ کسی اور زبان کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھتا تھا۔ جبکہ ہم مسافروں میں سے کسی کو بھی عربی نہیں آتی تھی۔

گھنٹہ ڈیڑھ تو اس ڈرائیور نے ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ایسے لگتا تھا کہ ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے یا ہم اس کی بس کے مسافر ہی نہیں ہیں۔ اس دوران آٹھ دس مزید سواریاں ہمارے ساتھ آ شامل ہوئیں۔ ان کا تعلق کسی دوسرے گروپ سے تھا۔

یہ ایک ویران سا بس اڈہ تھا۔ جس کے سامنے بڑے بڑے خشک پہاڑ اور چٹیل علاقہ تھا۔ قرب و جوار میں کوئی آبادی نہیں تھی۔ بس اڈے پر ایک انتظار گاہ اور ایک چھوٹا سا چائے خانہ تھا۔ ہم لوگ انتظار گاہ کے بجائے اپنی بس کے پاس ہی اپنے اپنے سوٹ کیسوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔

تقریباً ساڑھے دس بجے ہمارا سامان بس پر چڑھا دیا گیا۔ بعض مسافر بھی اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو گئے۔ لیکن بس چلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ وہ تو شکر ہے بس کا انجن اور ایئر کنڈیشنر آن تھا ورنہ اس کھلے اور چٹیل میدان میں دھوپ اور گرمی عروج پر تھی۔ سبزہ یا درخت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی تھی۔ بس پتھر تھے جو اس دھوپ میں چمک رہے تھے۔

ہمارے سوٹ کیس بس کی چھت پر رکھے ہوئے تھے۔ وہاں موجود دو عربوں نے اس کام میں ڈرائیور کی مدد کی تھی۔ میں نے نوٹ کیا کہ انہوں نے سوٹ کیس اوپر جا کر رکھ دیے ہیں لیکن کسی رسی وغیرہ سے باندھا نہیں ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا تو ایک صاحب کہنے لگے ’’شاید چلتے وقت ڈرائیور انہیں رسی سے باندھے گا‘‘

اس وقت بارہ بج چکے تھے جب ہماری بس اپنی جگہ سے ہلی۔ یوں اس اڈے پر ہم نے تین گھنٹے سے زائد انتظار کیا تھا۔ ڈرائیور نے اُوپر جا کر سامان نہیں باندھا تھا۔ بس کے اندر بھی کافی جگہ اور سیٹیں خالی تھیں۔ لیکن ہم نے اپنا سامان پہلے ہی اوپر رکھ چکے تھے۔ متوقع رش کے پیش نظر میں نے اپنا چھوٹا بیگ بھی اوپر رکھوا دیا تھا جس میں نقدی اور دوسری قیمتی اشیاء تھیں۔ اب مجھے اس کی فکر ہونے لگی۔ میں نے ڈرائیور سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن زبان آڑے آ گئی۔ اسے انگریزی اور اردو بالکل نہیں آتی تھی جبکہ میری ٹوٹی پھوٹی عربی بھی اس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ ناچار ہم خاموش ہو گئے۔ ہم نے سوچا کہ آخر وہ پیشہ ور بس ڈرائیور ہے۔ سامان کیسے باندھنا ہے اور گاڑی کیسے چلانی ہے، وہ ہم سے بہتر جانتا ہو گا۔ لیکن یہ ہماری غلط فہمی تھی۔ وہ شخص عقل اور پیشہ ورانہ مہارت ہر پہلو سے عاری تھا۔ مسافروں سے اُس نے سلام دعا تک نہیں کی تھی۔ وہ کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا اور خود عقل سے پیدل تھا۔

وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا۔ عین موٹر وے پر جہاں بس کی رفتار سو کلو میٹر سے زائد تھی گڑگڑاہٹ سی سنائی دی۔ کسی سواری نے سامان گرتے دیکھ لیا تو اس نے شور مچایا۔ ڈرائیور متوجہ ہوا تو اس نے آہستہ آہستہ گاڑی کی رفتار کم کرنے کی کوشش کی۔ رفتار کم ہوتے ہوتے اور رُکنے کے لیے مناسب جگہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس کئی کلومیٹر آگے نکل آئی۔ ڈرائیور نے بھی بیک ویو مرر سے کچھ گرتا دیکھا تھا۔ اس موٹر وے پر گاڑیوں کی حد رفتار اتنی زیادہ ہے کہ پیچھے آنے والی گاڑیوں کو اس سامان کی وجہ سے حادثہ بھی پیش آ سکتا تھا۔

پاکستانی عام بنیادی قوانین

پاکستانی عام شھری یہ پیغام اپنے پاس ضرور رکھیں

پولیس دفعہ کی معنی جانیں .....
* دفعہ 307 * = قتل کی کوشش کی
* دفعہ 302 * = قتل کی سزا
*دفعہ 376 * = عصمت دری
* دفعہ 395 * = ڈکیتی
* دفعہ 377 * = غیر فطری حرکتیں
* دفعہ 396 * = ڈکیتی کے دوران قتل
* دفعہ 120 * = سازش
* سیکشن 365 * = اغوا
* دفعہ 201 * = ثبوت کا خاتمہ
* دفعہ 34 * = سامان کا ارادہ
* دفعہ 412 * = خوشی منانا
* دفعہ 378 * = چوری
* دفعہ 141 * = غیر قانونی جمع
* دفعہ 191 * = غلط ھدف بندی
* دفعہ 300 * = قتل
* دفعہ 309 * = خودکش کوشش
* دفعہ 310 * = دھوکہ دہی
* دفعہ 312 * = اسقاط حمل
* دفعہ 351 * = حملہ کرنا
* دفعہ 354 * = خواتین کی شرمندگی
* دفعہ 362 * = اغو
ا * دفعہ 415 * = چال
* دفعہ 445 * = گھریلو امتیاز
* دفعہ 494 * = شریک حیات کی زندگی میں دوبارہ شادی کرنا
* دفعہ 499 * = ہتک عزت
* دفعہ 511 * = جرم ثابت ہونے پر جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا۔
ہمارے ملک میں، قانون کے کچھ ایسے ہی حقائق موجود ہیں، جس کی وجہ سے ہم واقف ہی نہیں ہیں، ہم اپنے حقوق کا شکار رہتے ہیں۔
تو آئیے اس طرح کچھ کرتے ہیں
پانچ دلچسپ حقائق آپ کو معلومات فراہم کرتے ہیں،
جو زندگی میں کبھی بھی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔
(1) شام کو خواتین کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا -
ضابطہ فوجداری کے تحت، دفعہ 46، شام 6 بجے کے بعد اور صبح 6 بجے سے قبل، پولیس کسی بھی خاتون کو گرفتار نہیں کرسکتی، چاہے اس سے کتنا بھی سنگین جرم ہو۔ اگر پولیس ایسا کرتی ہوئی پائی جاتی ہے تو گرفتار پولیس افسر کے خلاف شکایت (مقدمہ) درج کیا جاسکتا ہے۔ اس سے اس پولیس افسر کی نوکری خطرے میں پڑسکتی ہے۔
(2.) سلنڈر پھٹنے سے جان و مال کے نقصان پر 40 لاکھ روپے تک کا انشورینس کا دعوی کیا جاسکتا ہے۔
عوامی ذمہ داری کی پالیسی کے تحت، اگر کسی وجہ سے آپ کے گھر میں سلنڈر ٹوٹ جاتا ہے اور آپ کو جان و مال کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، تو آپ فوری طور پر گیس کمپنی سے انشورنس کور کا دعوی کرسکتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ گیس کمپنی سے 40 لاکھ روپے تک کی انشورنس دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ اگر کمپنی آپ کے دعوے کو انکار کرتی ہے یا ملتوی کرتی ہے تو پھر اس کی شکایت کی جاسکتی ہے۔ اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو ، گیس کمپنی کا لائسنس منسوخ کیا جاسکتا ہے۔
(3) کوئی بھی ہوٹل چاہے وہ 5 ستارے ہو… آپ مفت میں پانی پی سکتے ہیں اور واش روم استعمال کرسکتے ہیں -
سیریز ایکٹ، 1887 کے مطابق، آپ ملک کے کسی بھی ہوٹل میں جاکر پانی مانگ سکتے ہیں اور اسے پی سکتے ہیں اور اس ہوٹل کے واش روم کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔ اگر ہوٹل چھوٹا ہے یا 5 ستارے، وہ آپ کو روک نہیں سکتے ہیں۔ اگر ہوٹل کا مالک یا کوئی ملازم آپ کو پانی پینے یا واش روم کے استعمال سے روکتا ہے تو آپ ان پر کارروائی کرسکتے ہیں۔ آپ کی شکایت کے سبب اس ہوٹل کا لائسنس منسوخ ہوسکتا ہے۔
(4) حاملہ خواتین کو برطرف نہیں کیا جاسکتا -
زچگی بینیفٹ ایکٹ 1961 کے مطابق، حاملہ خواتین کو اچانک ملازمت سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ حمل کے دوران مالک کو تین ماہ کا نوٹس اور اخراجات کا کچھ حصہ دینا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف سرکاری ملازمت تنظیم میں شکایت درج کی جاسکتی ہے۔ یہ شکایت کمپنی بند ہونے کا سبب بن سکتی ہے یا کمپنی کو جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔
(5) پولیس افسر آپ کی شکایت لکھنے سے انکار نہیں کرسکتا
آئی پی سی کے سیکشن 166 اے کے مطابق، کوئی بھی پولیس افسر آپ کی شکایات درج کرنے سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف سینئر پولیس آفس میں شکایت درج کی جاسکتی ہے۔ اگر پولیس افسر قصوروار ثابت ہوتا ہے تو، اسے کم سے کم * (6) * ماہ سے 1 سال قید ہوسکتی ہے یا پھر اسے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔
یہ دلچسپ حقائق ہیں، جو ہمارے ملک کے قانون کے تحت آتے ہیں، لیکن ہم ان سے لاعلم ہیں۔
یہ پیغام اپنے پاس رکھیں، یہ حقوق کسی بھی وقت کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔

/low-fanil-pege.jpg

پاکستان نیوی میوزیم کراچی اسٹوری

پاکستان نیوی میوزیم اسٹوری کراچی اور بہترین تفریح گاہ

https://www.youtube.com/watch?v=A_vIsf21Gkk

/karacd.jpg

ملک بھر میں 6 ماہ بعد تعلیمی ادارے کھل گئ

کراچی سمیت ملک بھر میں کورونا وائرس کی وباء کے سبب بند ہونے والے تعلیمی ادارے آج سے مرحلہ وار کھلنا شروع ہو گئے۔

ملک بھر میں جامعات اور کالجوں کے ساتھ ساتھ نویں اور دسویں جماعت کی کلاسوں کا آغاز ہو گیا ہے۔

تعلیمی اداروں میں داخلے کے مقام پر طلبہ کے درمیان سماجی فاصلہ رکھنے کے لیے نشان بنائے گئے ہیں، واک تھرو جراثیم کش گیٹ نصب کیے گئے ہیں، اس موقع پر اسپرے اور سینی ٹائز بھی کیا گیا۔

ملک بھر میں 23 ستمبر کو چھٹی، ساتویں اور آٹھویں کلاسز اور 30 ستمبر سے پرائمری کلاسز بھی شروع ہو جائیں گی۔

کراچی سمیت سندھ بھر میں آج نویں ، دسویں تک سرکاری و نجی اسکول، مدارس، کالج اور جامعات کھل گئیں اور کورونا وائرس سے بچنے کی ایس او پیز پر عمل درآمد کے ساتھ تدریسی عمل کا آغاز ہو گیا۔

وزیرِ تعلیم سندھ سعید غنی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ صوبے میں تمام تعلیمی ادارے 15 سے 30 ستمبر کے دوران کھول دیئے جائیں گے۔

کراچی سمیت ملک بھر میں کورونا وائرس کی وباء کے سبب بند ہونے والے تعلیمی ادارے آج سے مرحلہ وار کھلنا شروع ہو گئے۔

ملک بھر میں جامعات اور کالجوں کے ساتھ ساتھ نویں اور دسویں جماعت کی کلاسوں کا آغاز ہو گیا ہے۔

تعلیمی اداروں میں داخلے کے مقام پر طلبہ کے درمیان سماجی فاصلہ رکھنے کے لیے نشان بنائے گئے ہیں، واک تھرو جراثیم کش گیٹ نصب کیے گئے ہیں، اس موقع پر اسپرے اور سینی ٹائز بھی کیا گیا۔

ملک بھر میں 23 ستمبر کو چھٹی، ساتویں اور آٹھویں کلاسز اور 30 ستمبر سے پرائمری کلاسز بھی شروع ہو جائیں گی۔

کراچی سمیت سندھ بھر میں آج نویں ، دسویں تک سرکاری و نجی اسکول، مدارس، کالج اور جامعات کھل گئیں اور کورونا وائرس سے بچنے کی ایس او پیز پر عمل درآمد کے ساتھ تدریسی عمل کا آغاز ہو گیا۔

وزیرِ تعلیم سندھ سعید غنی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ صوبے میں تمام تعلیمی ادارے 15 سے 30 ستمبر کے دوران کھول دیئے جائیں گے۔

/asclol.jpg

کراچی مون سون کا دوسرا روز کراچی پھر

ڈوپ گیا

/berf.jpg

/aaaasd.jpg

/adil.jpg

#RVM NEWS#

Risalah RVM NEWS HD

/rvm-news-logo-copy.jpg

اداکارہ عظمیٰ خان کی بیرسٹر حسان نیازی کے ساتھ تہلکہ خیز انکشاف

/adkra.jpg

وزیراعظم عمران خان

نے کہا ہے کہ ساری دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب کورونا کے ساتھ جینا ہے۔ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد کورونا سے متعلق صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لاک ڈاؤن کا مقصد یہ تھا کہ اسپتالوں پر بوجھ نہ پڑے۔

/imransdd.jpg

وزیر تعلیم سندھ سعید غنی کا کہنا ہے کہ صوبے میں بورڈ امتحانات منسوخ

 وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے بتایا کہ قوانین میں تبدیلی کرکے بچوں کو اگلی جماعت میں پروموٹ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ امتحانات نہ لینے کا فیصلہ سندھ حکومت کی تعلیمی اسٹیئرنگ کمیٹی نے کیا ہے۔

 وزیر تعلیم سندھ سعید غنی کا کہنا تھا کہ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں امتحانات کا انعقاد مشکل ہے، جبکہ قانون کے مطابق بورڈ کا بچوں کے امتحانات لینا ضروری ہے، سندھ میں بھی بچوں کو پروموٹ کیا جائے گا لیکن اس کیلئے قانون میں تبدیلی کرنا پڑے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون میں آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کر کے بچوں کو بغیر امتحان کے پروموٹ کرنے کی گنجائش نکالیں گے، وفاقی حکومت کیلئے شاید قانون کی اہمیت نہ ہو لیکن ہم قانون کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔

بچوں کو پروموٹ کرنے کے ساتھ ا ن کی پرسنٹیج بھی چینج کی جائے گی تاکہ انہیں آگے داخلوں میں مسائل نہ ہوں، اسٹیئرنگ کمیٹی کی اگلی میٹنگ میں پورا ایجوکیشن پلان طے کیا جائے گا۔

/saheed.jpg

سندھ حکومت کی طبی خدمات پر تنقید کرنے والوں کو کرارا جواب

ترجمان سندھ حکومت بیرسٹر مرتضی وہاب نے بیرون ملک سے آکر سندھ کی طبی سہولیات سے استفادہ کرنے والوں کا ریکارڈ پیش کردیا۔
بیرسٹر مرتضی وہاب نے بیرون ملک سے آکر سندھ کی طبی سہولیات سے استفادہ کرنے والوں کا ریکارڈ پیش کردیا۔

سائیبر نائف سہولت سے نہ صرف پاکستانی بلکہ بیرون ملک سے آنے والے مریضوں نے بھی استفادہ کیا۔ کراچی کے جناح ہسپتال میں قائم سائیبر نائف کے زریعے کینسر کے مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ سائیبر نائف سہولت سے بیرون ملک سے آنے والے 59 مریضوں نے استفادہ کیا۔ ان میں 33 افغانستان، 9 متحدہ عرب امارات، 4 سعودی عرب کے مریض شامل ہیں۔ کینیڈا اور کویت کے تین تین افراد کا یہاں مفت علاج کیا گیا۔امریکہ، کینینا، عمان، جنوبی افریقہ اور برطانیہ کا ایک ایک مریض جناح ہسپتال کے سائبر نائف سے مستفید ہوا

/wahcv.jpg

کراچی میں ٹہلے دار مزدور غریب عورتوں پولیس سے ٹہلا نا ہٹانے پر پولیس سے لڑ پڑے اس غریب عورت نے کہا کہ ہم کہاں جائیں کہاں سے کہائیں،
اور دوسری طرف پوليس قانون کی پاس داری نا کرتے ہوئے نہ ھلمینٹ نہ نمبر پلیٹ،
(رپورٹ عمران میزان کراچی)

/polv.jpg

Monthly RiSALAH KARACH

/logo-copy.jpg

April 2020 Risalah Karachi

/april-2020.jpg

https://www.youtube.com/watch?v=mVDmPTnNd4Y&t=10s

/dostf.jpg/box6.jpgRVM RISALAH Live /img-20200402-wa0049.jpg
/titls-copy.jpg

This website was built using N.nu - try it yourself for free.(info & kontakt)
[ X ]

The owner of this website has not logged in for more than 6 months.

Is this your website? Login here to remove this notice.

Or start your own website with N.nu: